Read more
دریائے راوی پربنائے جانے والا ”شاہ پورکانڈی“ ڈیم کی تعمیر سے بھارت کی جانب سے
آنے والا پانچ فیصد پانی بھی بالکل بند ہوچکا ہے ، اصل میں ہم ایک جذبات قوم ہیں
مگر حقیقت میں ہم مفاد پرست ہیں ، پاکستانی قوم کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہم
اپنے حکمران سے امید رکھے ہوئے ہیں۔ وہ خود چور ہیں۔بجلی کا بل دیکھو، کتنے ٹیکس
ہیں۔ ا لاہور کا ذکر راوی کے بغیر آدھا ہے۔ راوی جس کے کنارے اس شہر کو بسایا گیا
تھا آج روای خود دم توڑ رہا ہے -آج مگرمچھ کے آنسو بہانے والے اس کی تباہی کے ذمہ
دار ہیں بھارت میں راوی زندہ ہے ہم نے اسے مار دیا ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان
تقسیم کے ایک سال بعد ہی پانی پر جھگڑا شروع ہوگیا تھا جب کشمیر پر قبضے کے لیے
حملہ کیا گیا تو جواب میں بھارت نے دریاﺅں کا پانی روک دیا۔ اس جھگڑے کی صورت میں
سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔ سندھ طاس معاہدے میں چھ دریاﺅں سندھ‘چناب‘ستلج‘بیاس‘جہلم
اور راوی کوشامل کیا گیا معاہدےسے تین دریا راوی‘ بیاس اور ستلج بھارت اور
سندھ‘چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے سندھ طاس معاہدے میں شامل۔بھارت راوی
میں پانچ فیصد اضافی پانی بھی دیتا رہا جو دوملین ایکٹرفٹ بنتا ہے جبکہ سیلاب کی
صورت میں یہ کئی گنا زیادہ ہوجاتا تھا 2019میں ”پلوامہ حملوں“کے بعد وزیراعظم
نریندرمودی کا بیان سامنے آیا کہ ”خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے“ حقیقت میں
یہ بھارت کی نئی واٹرپالیسی کا اعلان تھا1995میں بھارتی وزیراعظم نرسیما راﺅ نے
پھٹان کوٹ میں دریائے راوی پر ”شاہ پور کانڈی “ ڈیم کی بنیاد رکھی۔گنگاجمنا کی طرح
ہندﺅ دھرم میں راوی کا شمار بھی مقدس دریاﺅں میں رہا ہے ہندﺅ کی مقدس کتاب” ویدا“
میں بہت سارے مقامات پر ”شنی اورایراوتی“ کے نام سے راوی کا ذکر ملتا ہے۔ پاکستان
کو ولن بنا یا کس نے ، پاکستان کی افسر شاہی اور حکمران اشرافیہ نے یہ سب کچھ کیا
ہے ۔ یس سب کچھ ہماری حکمران اشرافیہ اور افسرشاہی کی جہالت کی وجہ سے پاکستان ہر
سال29ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں ڈالتا ہے‘دنیا میں بارش کاپانی محفوظ کرنے
کے لیے ذحائر بنائے جاتے ہیں، ہمارے ہاں سالانہ145ملین ایکٹرفٹ پانی بارشوں سے حاصل
ہوتا ہے مگر ہم اس کا صرف دس فیصد یعنی 14ملین ایکٹرفٹ ہی استعمال کرپاتے ہیں اسی
طرح ہم عام استعمال میں ہم30ملین ایکٹرفٹ پانی ضائع کرتے ہیں، بارشوں کے پانی کے
ذخائرسے ہم کتنے فوائد حاصل کرسکتے تھے؟ یہ کہانی پھر سہی جاتے جاتے ایک وارننگ کا
ذکر جو کئی معتبر اداروں نے دی ہے کہ لاہور سمیت پاکستان کے بڑے حصے کو اتنا خطرہ
ایٹمی جنگ سے نہیں ،جتنا ماحولیاتی آلودگی سے خطرہ ہے۔




0 Reviews